Sunday 23 October 2022

بات تو دور نگاہوں سے اشارہ بھی نہیں

 بات تو دور، نگاہوں سے اشارہ بھی نہیں 

اس نے روکا بھی نہیں، اور پکارا بھی نہیں 

بے نیاز اتنا تھا دنیا سے بھی اور خود سے بھی 

اپنی بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا بھی نہیں 

نہ ہی اخبار پڑھوں، اور نہ ٹی وی دیکھوں 

کیا کروں میں، یہ طبیعت کو گوارا بھی نہیں 

وائے ناکامی کہ گرداب میں چھوڑا سب نے 

ڈوبتے شخص کو تنکے کا سہارا بھی نہیں 

فون کرتے رہے ہم، اور وہ کٹ کرتا رہا 

کیا محبت بھری رنگ ٹون گوارا بھی نہیں 

خط کے دن لد گئے، ای میل کیا ہے ہم نے 

دیکھ لینے ہی کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں 

سونے آنگن میں نہ کلکاری، نہ چشمک کوئی 

اور ستم یہ ہے کہ وہ شخص کنوارہ بھی نہیں 

جیب خالی ہے مگر، میری انا کہتی ہے 

پھینکے پیسوں کو اٹھا لوں، یہ گوارا بھی نہیں 

کر  لیا  اس لیے ہم نے بھی کنارہ ارشاد 

ہو سکا جو نہ کسی کا وہ ہمارا بھی نہیں 


ڈاکٹر ارشاد خان

No comments:

Post a Comment