اگر میں ذات کے زندان میں پڑا رہتا
یقین مانو، کہ نقصان میں پڑا رہتا
خدا نخواستہ ہم لوگ مل بھی جاتے اگر
میں تجھ سے ملنے کے امکان میں پڑا رہتا
مِرے وجود کی خوشبو سے لوگ جلتے تھے
وگرنہ، میں کسی گلدان میں پڑا رہتا
عجیب کیا جو تِرے ہجر میں گزاری حیات
تو کیا میں برزخِ احسان میں پڑا رہتا
سو اپنے ہونے کی قیمت چُکا رہا ہوں میاں
میں بچ بھی جاتا تو میدان میں پڑا رہتا
اگر تھا جانا تو رختِ سفر میں رکھ لیتے
مِرا وجود بھی سامان میں پڑا رہتا
شہباز گردیزی
No comments:
Post a Comment