خیال عشق میں دنیا کا ہے نہ دیں کا مجھے
تِرے جمال نے چھوڑا نہیں کہیں کا مجھے
تو کیوں نہ پہلے میں یاروں سے معزرت کر لوں
غزل میں لفظ کھپانا ہے آستیں کا مجھے
نہیں ہے میرے دکھوں کا مِرے سوا کوئی
خیال اس لیے رکھنا ہے مجھ حزیں کا مجھے
بہت پسند ہے میری جبیں کے سجدوں کو
وہ ایک داغ جو لگتا نہیں جبیں کا مجھے
کئی دلوں نے مجھے ہاں کہا تو ہے، لیکن
بنا کے رکھنا ہے خود کو تِری نہیں کا مجھے
عذابِ اطلس و کمخواب سے بچا لیا ہے
خدا نے دے کے بدن بوریا نشیں کا مجھے
سفر میں ساتھ میسر تھا چاند کا مجھ کو
جبھی تو مفت میں چکر پڑا زمیں کا مجھے
کوئی بھی آگ ہو مجھ پر اثر نہیں کرتی
وہ تجربہ ہے کسی حسنِ آتشیں کا مجھے
بجائے شعر لطیفے نہ کیوں سناؤں کبیر
اگر خیال ہی رکھنا ہے سامعیں کا مجھے
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment