وقت کی دھوپ
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے
خلا کے اندر ہی سب کچھ ہے
سناٹوں کی اپنی ہی آوازیں ہوتی ہیں
اور ان آوازوں کا سننا مشکل ہوتا ہے
آنے والے لمحے خوف دلاتے ہیں
ماضی مستقبل تک پیچھا کرتا ہے
کچھ نہ نظر آنے کا خوف بہت ہوتا ہے
لیکن بینائی کی اپنی قیمت ہوتی ہے
سب کچھ سامنے آ جائے تو آنکھوں میں
حیرت کے کنکر پڑ جاتے ہیں
پانی جمتے جمتے کائی بن جاتا ہے
سارے لمحے مرتے مرتے مر جاتے ہیں
کسی کے ساتھ کی خاطر یہ دل
خالی خولی نظروں سے تکتا رہتا ہے
خوشیاں ساتھ کہاں دیتی ہیں
غم بھی اپنی مرضی سے ہی آتے جاتے ہیں
ہر صورت میں قیمت تو یہ دل دیتا ہے
بدنامی کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہے
تیز ہوائیں کسی بھی لمحے
پتوں کو لے جاتی ہیں
پیڑوں کے چِلانے سے کیا ہوتا ہے
اور مہلت تو وقت کے ہاتھ میں ہوتی ہے
کسی بھی چیز کا کوئی انت نہیں ہوتا ہے
سارے بیچ میں انسانوں کی مدت ہوتی ہے
خواہش کا چھوٹا سا پودا
وقت کی دھوپ میں جل جاتا ہے
اور بھروسہ بالکل کانچ کی صورت ہوتا ہے
لیکن یہ بھی سچ ہے شاید
چاہے جتنا بھی ہم سوچیں
بات وہیں پر آ جاتی ہے
خواہش اور امید، بھروسہ
ختم بھی ہو جاتا ہے لیکن
پھر قائم ہو جاتا ہے
ہم پھر خواہش کرتے ہیں
پھر امید پر پہ جیتے ہیں
اور بھروسہ کرتے ہیں
سو میری جاں مت گھبراؤ
ایسے گھبرانے سے کیا ہو جائے گا
اس کو جب بھی آنا ہو گا آ جائے گا
فوقیہ مشتاق
No comments:
Post a Comment