Wednesday, 19 October 2022

خواہش کا چھوٹا سا پودا وقت کی دھوپ میں جل جاتا ہے

 وقت کی دھوپ


کبھی کبھی ایسا لگتا ہے

خلا کے اندر ہی سب کچھ ہے

سناٹوں کی اپنی ہی آوازیں ہوتی ہیں

اور ان آوازوں کا سننا مشکل ہوتا ہے

آنے والے لمحے خوف دلاتے ہیں

ماضی مستقبل تک پیچھا کرتا ہے

کچھ نہ نظر آنے کا خوف بہت ہوتا ہے

لیکن بینائی کی اپنی قیمت ہوتی ہے

سب کچھ سامنے آ جائے تو آنکھوں میں

حیرت کے کنکر پڑ جاتے ہیں

پانی جمتے جمتے کائی بن جاتا ہے

سارے لمحے مرتے مرتے مر جاتے ہیں

کسی کے ساتھ کی خاطر یہ دل

خالی خولی نظروں سے تکتا رہتا ہے

خوشیاں ساتھ کہاں دیتی ہیں

غم بھی اپنی مرضی سے ہی آتے جاتے ہیں

ہر صورت میں قیمت تو یہ دل دیتا ہے

بدنامی کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہے

تیز ہوائیں کسی بھی لمحے 

پتوں کو لے جاتی ہیں

پیڑوں کے چِلانے سے کیا ہوتا ہے

اور مہلت تو وقت کے ہاتھ میں ہوتی ہے

کسی بھی چیز کا کوئی انت نہیں ہوتا ہے

سارے بیچ میں انسانوں کی مدت ہوتی ہے

خواہش کا چھوٹا سا پودا

وقت کی دھوپ میں جل جاتا ہے

اور بھروسہ بالکل کانچ کی صورت ہوتا ہے

لیکن یہ بھی سچ ہے شاید

چاہے جتنا بھی ہم سوچیں

بات وہیں پر آ جاتی ہے

خواہش اور امید، بھروسہ

ختم بھی ہو جاتا ہے لیکن

پھر قائم ہو جاتا ہے

ہم پھر خواہش کرتے ہیں

پھر امید پر پہ جیتے ہیں

اور بھروسہ کرتے ہیں

سو میری جاں مت گھبراؤ

ایسے گھبرانے سے کیا ہو جائے گا

اس کو جب بھی آنا ہو گا آ جائے گا


فوقیہ مشتاق

No comments:

Post a Comment