بے موت انہیں ہم بھی یوں ماریں تو مزا ہے
اترے ہیں جو دل میں، وہ اتاریں تو مزا ہے
دل اب بھی تڑپتا ہے کہ یادیں تو ہیں باقی
یادوں کو بھی اب دل سے اتاریں تو مزا ہے
جو لوگ بضد ہیں ہمیں ٹھکرائیں گے فوراً
سر دے کے وہی صدقہ اتاریں تو مزا ہے
نخرے جو دکھائے اسے جیتیں بھی ضروری
اور بعد میں پھر جان کے ہاریں تو مزا ہے
اب ہم کو تو وہ ڈانٹ پلاتی ہے ہمیشہ
اب ہم بھی کبھی بیوی کو ماریں تو مزا ہے
سنتے ہی وہ بولی میں بلاؤں ابھی بھائی؟
اور سالے تِری کھال اتاریں تو مزا ہے
رخ ہم نے بھی یوں بدلا جبھی چل دئیے مسجد
یہ وقت ہے نازک ابھی ہاریں تو مزا ہے
اک مولوی بولا مجھے لاحول پڑھیں آپ
اور حور نئی گھر میں اتاریں تو مزا ہے
بچے ہوں ہمارے کوئی درجن سے زیادہ
آنگن میں ہمارے ہوں بہاریں تو مزا ہے
بے باک حسینوں کو یوں اپنا کے تو دیکھیں
بے باک مقدر یوں سنواریں تو مزا ہے
بے باک وہ کر دے جبھی بخشش کا وسیلہ
بے باک یوں ہم رب کو پکاریں تو مزا ہے
بے باک ڈیروی
ظریف ببر
No comments:
Post a Comment