گردشیں سدا رہیں عشق کے امور میں
زندگی بسر ہوئی صبر کے شعور میں
سوچ کے پروں پہ تھیں وصل کی اطاعتیں
آنکھ پھر جھکی رہی آپ کے حضور میں
عشق تھا رچا ہوا دھڑکنوں کے راگ میں
نبض جگمگا اٹھی عاشقی کے نور میں
دھوپ سے سنور اٹھیں چائے کی پیالیاں
قرب سے بھری رہی میز بھی غرور میں
وصل میں کہاں ہوا دیکھنا جناب کو
آسمان نے رکھ دیا حسن کو وفور میں
اشک جب رواں ہوئے ہجر کے عذاب میں
پانیوں نے کر دیا دشت بھی سرور میں
معراج کو تھا چُھو لیا جستجو تمام تھی
حُسن نے جلا دیا وصل کوہِ طور میں
اب کبھی نہ آئے گا موسمِ بہار گل
باغباں جلا گیا گلستاں قصور میں
گل نسرین
No comments:
Post a Comment