Sunday, 23 October 2022

گردشیں سدا رہیں عشق کے امور میں

 گردشیں سدا رہیں عشق کے امور میں

زندگی بسر ہوئی صبر کے شعور میں

سوچ کے پروں پہ تھیں وصل کی اطاعتیں

آنکھ پھر جھکی رہی آپ کے حضور میں

عشق تھا رچا ہوا دھڑکنوں کے راگ میں

نبض جگمگا اٹھی عاشقی کے نور میں

دھوپ سے سنور اٹھیں چائے کی پیالیاں

قرب سے بھری رہی میز بھی غرور میں

وصل میں کہاں ہوا دیکھنا جناب کو

آسمان نے رکھ دیا حسن کو وفور میں

اشک جب رواں ہوئے ہجر کے عذاب میں

پانیوں نے کر دیا دشت بھی سرور میں

معراج کو تھا چُھو لیا جستجو تمام تھی

حُسن نے جلا دیا وصل کوہِ طور میں

اب کبھی نہ آئے گا موسمِ بہار گل

باغباں جلا گیا گلستاں قصور میں


گل نسرین

No comments:

Post a Comment