بیٹھا ہے دل میں چھپ کے تمہارے عدو کہیں
برباد ہو نہ جائے مِری جستجو کہیں
اس پر اثر نہیں ہے کسی بات کا ابھی
بے کار ہو نہ جائے مِری گفتگو کہیں
پینے کا شوق ہے تو رہے یہ خیال بھی
ٹکرا کے ٹوٹ جائے نہ جام و سبو کہیں
اب آ بھی جاؤ وقت بہت کم ہے سوچ لو
ناکام ہو نہ جائے مِری آرزو کہیں
یوں لگ رہا ہے بہتا رہا خوں مدتوں
تھے دل میں زخم اور کہیں اور رفو کہیں
وہ پاک دامنی میں ہے مشہور اس قدر
جل جاؤ گے جو دیکھو اسے بے وضو کہیں
یہ سوچتا ہوں بڑھ کے اسے چوم لوں ضیا
مل جائے تیرے جیسا اگر ہو بہو کہیں
ضیا شادانی
No comments:
Post a Comment