لوگ نفرت کو جو نفرت سے مٹانے لگ جائیں
کوئی باقی نہ رہے، سبھی ٹھکانے لگ جائیں
آپ کے ظلم سے تنگ آ کے کسی دن مظلوم
اپنے ہاتھوں نہ کہیں جان گنوانے لگ جائیں
جو بتانی ہے ہمیں تم کو ذرا سی اک بات
راز بھی کم ہوں جو وہ بات بتانے لگ جائیں
تم سے سن سن کے نیا ایک بہانہ ہر روز
سوچ لو، ہم بھی اگر بات بنانے لگ جائیں
اپنی دانائی کو ظاہر جو کریں ہم اک بار
جتنے دانا ہیں یہاں سر کو کھجانے لگ جائیں
ہم پہ گزری ہے جو پتھر پہ گزر جائے اگر
وہ بھی گوہر کی طرح شعر سنانے لگ جائیں
زبیر گوہر
No comments:
Post a Comment