عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو! ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
اے دعا! ہاں عرض کر عرش الٰہی تھام کے
اے خدا! اب پھیر دے رخ گردشِ ایام کے
صلح تھی جن سے اب وہ بر سرِ پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لیے
کر رہے ہیں زخمِ دل، فریاد مرہم کے لیے
رحم کر نہ اپنے آئینِ کرم کو بُھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تُو نہ ہم کو بھول جا
خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈُوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوبؐ کی اُمت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہیں
آغا حشر کاشمیری
ہمارے پرائمری اسکول کے سنہری دنوں میں یہ کلام ہماری اردو کی کتاب کی زینت ہوا کرتا تھا۔ آج برسوں بعد جب اس پر نظر پڑی تو بچپن کی معصوم یادیں دل کے دریچوں پر دستک دینے لگیں۔ ایسا محسوس ہوا گویا وقت پلٹ کر ہمیں پھر اسی دور کی خوشبو میں لے گیا ہے۔
ReplyDeleteاس پُرآشوب اور ہنگامہ خیز زمانے میں یہ کلام پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت سے قریب اور حالات سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ یہ پیغام آج بھی ہمارے لیے روشنی کا چراغ بنے۔ اس حسین یاد کو زندہ کرنے پر تہہ دل سے ممنون ہوں۔ ۔ محمد اسلم
اسلم جی واقعی ہمارے سکول کا دور آج کے مقابلے میں بہت زیادہ عملی تھا، اس دور کی یادیں واقعی یادگار ہیں۔
Delete