ہر کوئی اپنی اپنی کہانی لیے ہوئے
بس روئے جا رہا ہے زبانی لیے ہوئے
اب ڈھونڈتا ہے جانے وہ مُجھ کو کہاں کہاں
اِک شہرِ طلسمات کی رانی لیے ہوئے
بیٹھے ہوئے ہیں چوک میں کُچھ عاشقِ رسولؐ
دینے کو سب کو موت کا پانی لیے ہوئے
کل شب وہ بحث کر رہا تھا ماہتاب سے
میری غزل تھی ایک پُرانی لیے ہوئے
آنکھیں بتا رہیں تھیں کہ کوئی تو سین ہے
دریا نکل پڑا ہے روانی لیے ہوئے
سعد سین
No comments:
Post a Comment