Thursday 11 April 2024

ہر کوئی اپنی اپنی کہانی لیے ہوئے

 ہر کوئی اپنی اپنی کہانی لیے ہوئے

بس روئے جا رہا ہے زبانی لیے ہوئے

اب ڈھونڈتا ہے جانے وہ مُجھ کو کہاں کہاں

اِک شہرِ طلسمات کی رانی لیے ہوئے

بیٹھے ہوئے ہیں چوک میں کُچھ عاشقِ رسولؐ

دینے کو سب کو موت کا پانی لیے ہوئے

کل شب وہ بحث کر رہا تھا ماہتاب سے

میری غزل تھی ایک پُرانی لیے ہوئے

آنکھیں بتا رہیں تھیں کہ کوئی تو سین ہے

دریا نکل پڑا ہے روانی لیے ہوئے


سعد سین

No comments:

Post a Comment