Thursday 11 April 2024

وہیں پہ غم ہے جہاں پر خوشی پڑی ہوئی ہے

 وہیں پہ غم ہے جہاں پر خوشی پڑی ہوئی ہے

اور ان کے بیچ میں بھی دشمنی پڑی ہوئی ہے

نمٹ لوں اس سے تو سوچوں گا اپنے بارے میں 

ابھی تو میرے گلے زندگی پڑی ہوئی ہے

نگاہ مجھ پہ کرے گا ضرور دشت جنوں

ذرا سی خاک مِرے سر میں بھی پڑی ہوئی ہے

جو بات ہو نہ سکی اس کی بات کی جائے

وہ بات جو کہ ابھی ان کہی پڑی ہوئی ہے

میں اس لیے بھی نہیں کھولتا وہ الماری

پرانے کپڑوں میں دیوانگی پڑی ہوئی ہے


اعجاز حیدر

No comments:

Post a Comment