وہیں پہ غم ہے جہاں پر خوشی پڑی ہوئی ہے
اور ان کے بیچ میں بھی دشمنی پڑی ہوئی ہے
نمٹ لوں اس سے تو سوچوں گا اپنے بارے میں
ابھی تو میرے گلے زندگی پڑی ہوئی ہے
نگاہ مجھ پہ کرے گا ضرور دشت جنوں
ذرا سی خاک مِرے سر میں بھی پڑی ہوئی ہے
جو بات ہو نہ سکی اس کی بات کی جائے
وہ بات جو کہ ابھی ان کہی پڑی ہوئی ہے
میں اس لیے بھی نہیں کھولتا وہ الماری
پرانے کپڑوں میں دیوانگی پڑی ہوئی ہے
اعجاز حیدر
No comments:
Post a Comment