ذہن میں مشکلوں کا حل آیا
ایک ہیجان سے نکل آیا
کتنی آسودگی تھی جنت میں
پھر میسر مجھے وہ پھل آیا
مجھ سے پھر بھی وہ دو قدم پہ رہا
جس کی خاطر میں میلوں چل آیا
اس سے ممکن نہیں تھی سیرابی
میرے ہاتھوں میں جتنا جل آیا
خود کو میں اور کس طرح بدلوں
رنگ میں تیرے اب تو ڈھل آیا
وہ محبت خرید سکتا ہے
سوچ میں اس کی یہ خلل آیا
لوگ پیاسوں کو مار دیتے تھے
اس روایت کو میں بدل آیا
جتنا ہم کھینچتے رہے محسن
اتنا ان رسیوں میں بل آیا
محسن دوست
No comments:
Post a Comment