Wednesday, 3 April 2024

اس نے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے

 اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے

مدتیں ہو گئیں دل جلاتے ہوئے


جانے کیوں چل دیا اس طرح رُوٹھ کر

میں نے چاہا تھا جس کو کبھی ٹُوٹ کر

خواب ٹُوٹا وہ ہی ہاتھ سے چُھوٹ کر

وہ تو لے ہی گیا دل مِرا لُوٹ کر

عشق کے ضابطہ کو نبھاتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


دور تک ہے اندھیرا مِری راہ میں

دل تڑپتا ہے اب بھی تِری چاہ میں

وہ مِلے گا کہیں تو کسی گاہ میں

درد ہوتا بیاں ہے مِری آہ میں

لوگ ہیں پُوچھتے آتے جاتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


مُشکلوں سے بھرا ہے یہ میرا سفر

چاہے جاؤ جدھر، وہ ہی آئے نظر

آج پھر سے میں آیا ہوں اس کے نگر

شاعری کا جو دے کر گیا تھا ہُنر

جگنوؤں کی طرح جگمگاتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


یہ تصوّر تِرا اور تنہائیاں

ساتھ میرے چلی تیری پرچھائیاں

تیری باتوں میں لگتی تھی سچائیاں

یاد آتی رہیں تیری نادانیاں

اس کی یادوں سے دل کو سجاتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


آرزو ہے مِری وہ مِرے ساتھ ہو

ہے تمنّا یہی بس ملاقات ہو

پھر ستاروں کے جُھرمٹ کی اک رات ہو

اور ہاتھوں میں بس اک تیرا ہاتھ ہو

پاس آ جائیے مُسکراتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


زندگی سے تِری میں چلا جاؤں گا

پُوچھتے ہیں وہ مجھ سے کہاں جاؤں گا

اپنا وعدہ وفا میں نبھا جاؤں گا

تیری راہوں میں دل کو جلا جاؤں گا

میرے سارے خطوں کو جلاتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


عشق میں تجھ کو کوئی تو حاصل ملے

یہ دُعا ہے مِری تجھ کو منزل ملے

گر ملے تجھ کو کوئی تو مہمل ملے

تیرے جیسا تجھے کوئی سنگدل ملے

میری راتوں کی نیندیں چُراتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


میرے دل اب تو اس کی لگن چھوڑ دے

یہ شہر بھی ہے اس کا چمن چھوڑ دے

اس کی یادوں کی دل سے جلن چھوڑ دے

محفلیں بھی تو اس کا جشن چھوڑ دے

جا رہا ہوں میں عابد بتاتے ہوئے

اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے


عابد نواب سہارنپوری

No comments:

Post a Comment