Friday 5 April 2024

ایک جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا

 اختیار نہ کیا گیا راستہ


زرد جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا

اور افسوس دونوں پہ چلنا تو ممکن نہ تھا

مجھ کو ہونا تھا بس ایک ہی کا مسافر، میں دیکھا کیا

دیر تک ایک کو حدِ امکان تک

وہاں تک جہاں ہو رہا تھا وہ خم کھا کے جنگل میں گُم

میں نے پھر دوسرے کو لیا، وہ جو اُتنا ہی خوشرنگ تھا

مدعی بھی زیادہ تھا شاید

کہ تھی اُس پہ گھاس اور وہ قدموں کی طالب تھی

گو اُس جگہ آمد و رفت سے

دونوں یکساں ہی پامال تھے

اور اُس صبح دونوں پہ تھے

راہگیروں کے قدموں سے محفوظ پتے

میں نے پہلے کو چھوڑا کسی اور دن کے لیے

گو کہ معلوم تھا کیسے اک راہ سے دوسری رہ نکلتی ہے

اور واپسی کتنی دُشوار ہوتی ہے

میں بیاں کر رہا ہوں گا اک آہ بھر کے

کہیں آج سے سالہا سال بعد

ایک جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا، اور میں

میں نے وہ چُن لیا جس پہ کم آمد و رفت رہتی رہی

اور اسی بات نے فرق ڈالا تمام


شاعر؛ رابرٹ فراسٹ

اردو ترجمہ: باصر سلطان کاظمی

No comments:

Post a Comment