اختیار نہ کیا گیا راستہ
زرد جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا
اور افسوس دونوں پہ چلنا تو ممکن نہ تھا
مجھ کو ہونا تھا بس ایک ہی کا مسافر، میں دیکھا کیا
دیر تک ایک کو حدِ امکان تک
وہاں تک جہاں ہو رہا تھا وہ خم کھا کے جنگل میں گُم
میں نے پھر دوسرے کو لیا، وہ جو اُتنا ہی خوشرنگ تھا
مدعی بھی زیادہ تھا شاید
کہ تھی اُس پہ گھاس اور وہ قدموں کی طالب تھی
گو اُس جگہ آمد و رفت سے
دونوں یکساں ہی پامال تھے
اور اُس صبح دونوں پہ تھے
راہگیروں کے قدموں سے محفوظ پتے
میں نے پہلے کو چھوڑا کسی اور دن کے لیے
گو کہ معلوم تھا کیسے اک راہ سے دوسری رہ نکلتی ہے
اور واپسی کتنی دُشوار ہوتی ہے
میں بیاں کر رہا ہوں گا اک آہ بھر کے
کہیں آج سے سالہا سال بعد
ایک جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا، اور میں
میں نے وہ چُن لیا جس پہ کم آمد و رفت رہتی رہی
اور اسی بات نے فرق ڈالا تمام
شاعر؛ رابرٹ فراسٹ
اردو ترجمہ: باصر سلطان کاظمی
No comments:
Post a Comment