میں یہ گاؤں واسی ہوں سو شہر جانے سے رہے
شہر کی اس آنکھ میں اب اشک آنے سے رہے
تین بیٹوں کو اکیلا ہی وہ پالا کرتا تھا
تین بیٹے بوجھ ابا کا اٹھانے سے رہے
کربلا میں آج تو خود ہی کوئی رستہ نکال
آج ہم اے تشنگی تجھ کو بجھانے سے رہے
رات میں بس اپنے پاؤں پڑ گیا، نہ مانے وہ
آج خود کو خود کی محفل میں پلانے سے رہے
یوں تجھے خود ہی کوئی حربہ لگانا ہو گا اب
رات دن تیری گلی میں ہم تو آنے سے رہے
ہے تعجب میرے گاؤں میں یہ بہرے رہتے ہیں
ہم شرارت میں یوں گالی بھی سنانے سے رہے
جب سے پیدا میں ہوا ہوں جھوٹ ہی بولا طلب
شیر سچ میں آ گیا یہ بھی بتانے سے رہے
نعیم طلب
No comments:
Post a Comment