Thursday, 12 September 2024

میں یہ گاؤں واسی ہوں سو شہر جانے سے رہے

 میں یہ گاؤں واسی ہوں سو شہر جانے سے رہے

شہر کی اس آنکھ میں اب اشک آنے سے رہے

تین بیٹوں کو اکیلا ہی وہ پالا کرتا تھا

تین بیٹے بوجھ ابا کا اٹھانے سے رہے

کربلا میں آج تو خود ہی کوئی رستہ نکال

آج ہم اے تشنگی تجھ کو بجھانے سے رہے

رات میں بس اپنے پاؤں پڑ گیا، نہ مانے وہ

آج خود کو خود کی محفل میں پلانے سے رہے

یوں تجھے خود ہی کوئی حربہ لگانا ہو گا اب

رات دن تیری گلی میں ہم تو آنے سے رہے

ہے تعجب میرے گاؤں میں یہ بہرے رہتے ہیں

ہم شرارت میں یوں گالی بھی سنانے سے رہے

جب سے پیدا میں ہوا ہوں جھوٹ ہی بولا طلب

شیر سچ میں آ گیا یہ بھی بتانے سے رہے


نعیم طلب

No comments:

Post a Comment