وہی رات بھر تجھے سوچنا وہی چاہتوں کے نصاب ہیں
یہ بڑے طویل ہیں سلسلے یہ بڑے طویل عذاب ہیں
ہمیں روز ملتی ہیں سازشیں یہاں دوستی کے لباس میں
یہاں ہر قدم پہ فریب ہیں یہاں ہر طرف ہی سراب ہیں
یہ کرم ہے ربِ کریم کا مجھے اتنے رنگ عطا کیے
جو مٹا رہے تھے نشاں مِرا نہ سوال ہیں نہ جواب ہیں
جو سمندروں میں سکوت ہے اسے دیکھ کر نہ فریب کھا
کئی اشک ہیں جو بہے نہیں،۔ کئی زلزلے تہِ آب ہیں
کئی چاندنی میں گندھے ہوئے، کئی تتلیوں میں گھرے ہوئے
وہ جو پھُول تھے تیری راہ کے وہی آج مجھ پہ عذاب ہیں
وہ جو لوگ تھے یہاں ریت سے، انہیں کیا ہوا وہ کہاں گئے
یہاں پتھروں سی ہے بے حِسی یہاں پتھروں سے گُلاب ہیں
ہمیں بھُوک اپنی قبُول ہے،۔ یہاں نفرتیں نہیں بیجنا
میرے گاؤں میں بڑا امن ہے میری آنکھ میں بڑے خواب ہیں
اظہر کمال
No comments:
Post a Comment