Thursday 12 September 2024

وہی رات بھر تجھے سوچنا وہی چاہتوں کے نصاب ہیں

 وہی رات بھر تجھے سوچنا وہی چاہتوں کے نصاب ہیں

یہ بڑے طویل ہیں سلسلے یہ بڑے طویل عذاب ہیں

ہمیں روز ملتی ہیں سازشیں یہاں دوستی کے لباس میں

یہاں ہر قدم پہ فریب ہیں یہاں ہر طرف ہی سراب ہیں

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مجھے اتنے رنگ عطا کیے

جو مٹا رہے تھے نشاں مِرا نہ سوال ہیں نہ جواب ہیں

جو سمندروں میں سکوت ہے اسے دیکھ کر نہ فریب کھا

کئی اشک ہیں جو بہے نہیں،۔ کئی زلزلے تہِ آب ہیں

کئی چاندنی میں گندھے ہوئے، کئی تتلیوں میں گھرے ہوئے

وہ جو پھُول تھے تیری راہ کے وہی آج مجھ پہ عذاب ہیں

وہ جو لوگ تھے یہاں ریت سے، انہیں کیا ہوا وہ کہاں گئے

یہاں پتھروں سی ہے بے حِسی یہاں پتھروں سے گُلاب ہیں

ہمیں بھُوک اپنی قبُول ہے،۔ یہاں نفرتیں نہیں بیجنا

میرے گاؤں میں بڑا امن ہے میری آنکھ میں بڑے خواب ہیں


اظہر کمال

No comments:

Post a Comment