اُجاڑ لمحوں کی داستانیں جو تم کہو تو سُنائیں تم کو
بہت سا ہم جاگتے رہے ہیں چلو ذرا سا جگائیں تم کو
تمہی ہو جو روشنی سی بن کر ہماری آنکھوں میں آ بسے ہو
جب اپنی آنکھیں ہی کہہ دیا ہے تو پھر بھلا کیوں رُلائیں تم کو
تم آج کیوں مُضطرب ہو جاناں، تمہارے لہجے میں ٹُوٹ کیسی
کہا نہیں تھا کہ وقت دے گا کدُورتوں کی سزائیں تم کو
غُبار آلود راستوں میں تلاش کر کر کے تھک گئے ہیں
کہاں پہ جا کر بسے ہوئے ہو کہاں سے ہم ڈھونڈ لائیں تم کو
تمہیں تو سُکھ آ گئے میسّر تمہیں تو ہم یاد ہی نہیں ہیں
مگر بتاؤ کہ ہم جو چاہیں تو کس طرح سے بھُلائیں تم کو
تم اپنی باتوں پہ مطمئن ہو، ہمیں بھی شرمندگی نہیں ہے
انا کی دیوار کو گِرا کر نہیں یہ ممکن منائیں تم کو
کہو اے جاذب یہ جھوٹ ہے نا! کہ تم نے اس کو بھُلا دیا ہے
ابھی تلک جس کی شوخ یادیں ہر ایک لمحہ ستائیں تم کو
بہزاد جاذب
No comments:
Post a Comment