کبھی پردہ در ہوں میں راز کا کبھی ہوں میں پردۂ راز میں
کہ حقیقت اک مِری مشترک ہے حقیقت اور مجاز میں
یہ کہاں کے جلوے سما گئے یہ کہاں کی حیرتیں چھا گئیں
کہ ہزاروں آئینہ لگ گئے ہیں نگاہ آئینہ ساز میں
کبھی تو بھی طالب رحم ہو کبھی تو بھی غیر پہ جان دے
کبھی جلوہ گر ہو خدا کرے تِرا ناز میرے نیاز میں
کبھی یہ بھی دیکھتے دیکھتے مِری آنکھ سے نہ ٹپک پڑے
کہ گداز عالم خون دل ہے مِرے جگر کے گداز میں
نہ کروں سلام جو کعبہ کو نہ کروں جو سجدہ تو کیا کروں
ہے خیال بُت مِرے سامنے میں کھڑا ہوا ہوں نماز میں
تِری برق جلوہ جلا چکی تھی اٹھا کے پردۂ رخ مگر
مِری بے خودی نے چھپا لیا مجھے اپنے پردۂ راز میں
مِری شہرتیں مجھے کھینچ لائیں فریب دے کے وگرنہ میں
وہ طلسم عالم راز ہوں کہ رہا ہوں مُدتوں راز میں
کسی طرح ہو تو گئی سحر مگر اب یہ ڈر ہے لگا ہوا
مری شام غم نہ شریک ہو کہیں ان کی زلف دراز میں
وہ طلسم گمشدگی ہوں میں کہ بقا ہے اپنی فنا مجھے
مِری خامشی ہے نوا گری میں نہاں ہوں پردۂ ساز میں
توفیق بزمِ خیال میں نہ ملے گا میرا پتہ کہیں
نگہِ حقیقتِ شوق ہوں مجھے ڈھونڈ چشمِ مجاز میں
توفیق حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment