زیست کو خوگر بیداد کیے جاتا ہوں
بھولنے والے تجھے یاد کیے جاتا ہوں
دل کو دیتا ہوں شب و روز فریب باطل
میں بہر طور اسے شاد کیے جاتا ہوں
دل تو فرمان کی تعمیل کیے جاتا ہے
میرا یہ حال کہ فریاد کیے جاتا ہوں
شادمانی سے مِرا حال بُرا ہوتا ہے
دلِ نا کام کو ناشاد کیے جاتا ہوں
اب بھی ہے ان کی جفاؤں کا بھروسہ قائم
چشمِ خوں بار کی امداد کیے جاتا ہوں
ہاشمی جاتا ہوں بتخانے بھی میخانے بھی
اور اللہ کو بھی یاد کیے جاتا ہوں
ظفر ہاشمی
No comments:
Post a Comment