Saturday, 14 September 2024

زیست کو خوگر بیداد کیے جاتا ہوں

 زیست کو خوگر بیداد کیے جاتا ہوں

بھولنے والے تجھے یاد کیے جاتا ہوں

دل کو دیتا ہوں شب و روز فریب باطل

میں بہر طور اسے شاد کیے جاتا ہوں

دل تو فرمان کی تعمیل کیے جاتا ہے

میرا یہ حال کہ فریاد کیے جاتا ہوں

شادمانی سے مِرا حال بُرا ہوتا ہے

دلِ نا کام کو ناشاد کیے جاتا ہوں

اب بھی ہے ان کی جفاؤں کا بھروسہ قائم

چشمِ خوں بار کی امداد کیے جاتا ہوں

ہاشمی جاتا ہوں بتخانے بھی میخانے بھی

اور اللہ کو بھی یاد کیے جاتا ہوں


ظفر ہاشمی

No comments:

Post a Comment