گُل سے بھی اہل چمن خوشبو جدا کر دیکھو
جی میں آئے جو تمہارے وہ جفا کر دیکھو
ہم ہیں انسان، تمہی جیسے ہیں آدم زادے
ہم سے افلاس کے پتھر جو ہٹا کر دیکھو
اتنی بگڑی تو نہ تھی پہلے سحر کی صورت
گزری کیا عالم خورشید پہ جا کر دیکھو
حُسن والوں کی جبلّت ہے قیامت سازی
دہر میں تم بھی کوئی حشر بپا کر دیکھو
دیکھنا چاہو جو ظلمت میں دہکتی ٹھنڈک
دو گھڑی بالوں میں گُل ایک سجا کر دیکھو
دل کے ویرانے میں اب کوئی نہیں آئے گا
عمر بھر لاکھ دِیے غم کے جلا کر دیکھو
یہی مسلک ہے منیب اپنا یہی کہتے ہیں
جو کریں تم پہ جفا ان سے وفا کر دیکھو
منیب برہانی
No comments:
Post a Comment