عجب نہیں ہے کہ از راہِ جاہ کرتا رہے
عدُو کا کام بھی میرِ سِپاہ کرتا رہے
تو کیا خموش رہیں، اس کے ڈر سے بُت بن جائیں
تو جی میں آئے بھلے جو بھی شاہ کرتا رہے
ہے کس خُدا کی طرف سے نوشتۂ دیوار
کہ شاہ شاہ ہے جب تک نِباہ کرتا رہے
خُدا کے سارے مشیر اس کے ساتھ ہیں تو وہ شخص
خدا کے نام پہ ہر اک گُناہ کرتا رہے
اسے کہو کہ نہ ہارے وہ حوصلہ ہرگز
سخن کا شعلہ یونہی زادِ راہ کرتا رہے
عثمان حبیب
No comments:
Post a Comment