Tuesday 1 October 2024

میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل

 تاج محل


میں تیرا شاہ جہاں، تو میری ممتاز محل

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں


ہائے یہ ناز، یہ انداز، یہ غمزہ، یہ غرور 

اس نے پامال کیے کتنے شہنشاہوں کے تاج 

نیم باز آنکھوں میں یہ کیف یہ مستی یہ سرور 

پیش کرتے ہیں جسے اہلِ نظر دل کا خراج 

یہ تبسّم، یہ تکلم، یہ سلیقہ، یہ شعور 

شوخ، سنجیدہ، حیا دار، حسیں سادہ مزاج  

آ تیرے واسطے تعمیر کروں تاج محل 

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

میں تیرا شاہ جہاں، تو میری ممتاز محل


موگرا، موتیا، رابیل، چمبیلی، چمپا 

سوسن و یاسمن و نسترن  و سرو سمن

رات رانی، گل مچکن، گل نسریں، شہلا

پھول لب ، پھول دہن، پھول ذقن، پھول بدن

میری سُورج مُکھی گُل چاندنی جوہی بیلا

ہار سنگھار و گُل کچنار و گلنار چمن

میری نرگس میری گل شب و میری پھول کنول

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں 

میں تیرا شاہ جہاں، تو میری ممتاز محل


 شمع، خورشید، قمر، برق، شرر، سیارے

ہے تیرے ہی رخِ انوار کی ان سب میں چمک 

لال، یاقوت، شفق، پھول، حنا، انگارے 

ہیں تیرے ہی لب و رخسار کی ان سب میں جھلک 

وہی اڑتے ہوئے چھینٹے ہیں یہ جگنو سارے 

تیرے ساغر سے ازل ہی میں جو گئے تھے چھلک 

بادۂ حسن میرے جامِ شفق رنگ میں ڈھل 

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

میں تیرا شاہ جہاں، تو میری ممتاز محل

 

میں تیرا قیس تُو لیلٰئ شبستانِ جمال 

میں تیرا وامق جانسوز، تُو عذرائے زماں 

خدو خال و رخ و گیسُو کی نہیں کوئی مثال 

میں شہنشاہ جہانگیر ہوں تُو نور جہاں 

میری شیریں سخنی میں تیرا فرہادِ خیال 

شاعرِ ہند ہوں میں اور تُو میری اردو زباں 

اے میرے گیت کی جاں، اے میری محبوب غزل 

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں 

میں تیرا شاہ جہاں تُو میری ممتاز محل


کہ تُو ہے اقبال کی نظموں کا حسیں درسِ حیات 

میر، غالب، ظفر و ذوق کا اندازِ کلام 

جوش کی نظم مسلسل فکری کے قطعات 

داغ کی سادہ زباں، نوح کا طوفانِ خرام 

تیرے اوصاف کے پہلو ہیں جگر کے حالات 

تُو میری جانِ رباعی ہے، میں تیرا خیّام 

میں تیرا حافظ شیراز، تُو صہبائے غزل 

آ تجھے پیار کی انمول کی نشانی دے دوں 

میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل 

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں 


رُخ پہ لہرائی ہوئی زُلفوں میں ساون کی بہار 

جیسے گلزار پہ گھنگور گھٹا چھائی ہو 

ان لجائی ہوئی آنکھوں میں جوانی کا خُمار 

رات بھر جیسے نہ مہجور کو نیند آئی ہو 

یہ مہکتی ہوئی سانسیں یہ گُلابی رُخسار 

جام میں سُرخ پری جیسے اُتر آئی ہو 

میں کہ ایک شاعر برباد میرا نام اجمل 

آ تجھے پیار کی اک انمول نشانی دے دوں 

میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل 


اجمل سلطانپوری

No comments:

Post a Comment