بنی ہوں حکمِ خدا سے، یہ داسیاں میری
نبھا رہی ہیں یوں مجھ سے اُداسیاں میری
مِرا کمال تو کچھ بھی نہیں، تجھے اے دوست
لے آئیں کھینچ کے نزدیک خُوبیاں میری
ہجُوم چاروں طرف ہے تماش بینوں کا
کھڑی ہیں جا کے بہت دُور، پستیاں میری
میں اس کے ساتھ خوشامد سے پیش آتا رہوں
بھلی لگیں گی زمانے کو خامیاں میری
عدُو نے دیکھ کے موسم عروج کا مجھ پر
شمار عیب بھی کرنے ہیں نیکیاں میری
مِرے رقیب کی محفل میں بیٹھ کر تم نے
بس ایک پل میں اُڑا دی ہیں دھجیاں میری
میں ان کا پھُول ہوں لیکن بغیر کانٹے کے
سہیلیاں ہیں تِرے بعد تتلیاں میری
بھلے کے ساتھ بھلائی بہت ضروری ہے
نصیحتیں مجھے کرتی ہیں سِسکیاں میری
انہیں میں صاحبِ انصاف کیوں کروں تسلیم
جنہیں نظر نہیں آتی ہیں عرضیاں میری
عبید رضا عباس
No comments:
Post a Comment