Thursday, 10 October 2024

نظم کہیں بھی آخری سانس لے لیتی ہے

 نظم کہیں بھی آخری سانس لے لیتی ہے

افسانہ اچانک راستہ بدل لیتا ہے

کوئی بھری چوپال میں

شکریہ زندگی

کہہ کے چل دیتا ہے اور بستی خالی ہو جاتی ہے

کہیں دور اک دل میں مٹی کی اک ڈھیری گلابوں سے ڈھک جاتی ہے

اور آنسو اس پر سائبان تان لیتے ہیں

پچھلے قدموں پر لوٹتے چراغ پارک میں

اک چراغ گُل ہو جاتا ہے

اس کی بُجھتی لو سے

میں روز ہی اک دِیا جلاتا ہوں

وہ لو میری آنسوؤں کو پہچانتی ہے


محمود ناصر ملک

No comments:

Post a Comment