نظم کہیں بھی آخری سانس لے لیتی ہے
افسانہ اچانک راستہ بدل لیتا ہے
کوئی بھری چوپال میں
شکریہ زندگی
کہہ کے چل دیتا ہے اور بستی خالی ہو جاتی ہے
کہیں دور اک دل میں مٹی کی اک ڈھیری گلابوں سے ڈھک جاتی ہے
اور آنسو اس پر سائبان تان لیتے ہیں
پچھلے قدموں پر لوٹتے چراغ پارک میں
اک چراغ گُل ہو جاتا ہے
اس کی بُجھتی لو سے
میں روز ہی اک دِیا جلاتا ہوں
وہ لو میری آنسوؤں کو پہچانتی ہے
محمود ناصر ملک
No comments:
Post a Comment