Wednesday, 9 October 2024

ظلمت میں گھری اپنی تقدیر مبیں ہو گی

 ظلمت میں گھری اپنی تقدیر مبیں ہو گی

امید ہے خوابوں کی تعبیر حسیں ہو گی

جب جب بھی ستم ہو گا مظلوم پہ ظالم کا

افسردہ فلک ہو گا، دلگیر زمیں ہو گی

کردار لیے رن میں بے خوف میں جاؤں گا

ہاتھوں میں مِرے کوئی شمشیر نہیں ہو گی

سنگِ درِ اقدس پر رکھتے رہو سر اپنا

دل ہو گا منزہ اور تطہیر جبیں ہو گی

زنداں سے تعصب کے نکلا ہے بظاہر تُو

لگتا ہے ابھی تجھ میں زنجیر کہیں ہو گی

روشن ہی رہے گا وہ اک شمعِ شمائل سا

جس قلب مطہّر میں تنویر مکیں ہو گی

جو چاہے خمار اپنے اعمال سے کر لیجے

دوزخ ہو کہ جنت ہو، تعمیر یہیں ہو گی

         

ریاض احمد خمار

No comments:

Post a Comment