ظلمت میں گھری اپنی تقدیر مبیں ہو گی
امید ہے خوابوں کی تعبیر حسیں ہو گی
جب جب بھی ستم ہو گا مظلوم پہ ظالم کا
افسردہ فلک ہو گا، دلگیر زمیں ہو گی
کردار لیے رن میں بے خوف میں جاؤں گا
ہاتھوں میں مِرے کوئی شمشیر نہیں ہو گی
سنگِ درِ اقدس پر رکھتے رہو سر اپنا
دل ہو گا منزہ اور تطہیر جبیں ہو گی
زنداں سے تعصب کے نکلا ہے بظاہر تُو
لگتا ہے ابھی تجھ میں زنجیر کہیں ہو گی
روشن ہی رہے گا وہ اک شمعِ شمائل سا
جس قلب مطہّر میں تنویر مکیں ہو گی
جو چاہے خمار اپنے اعمال سے کر لیجے
دوزخ ہو کہ جنت ہو، تعمیر یہیں ہو گی
ریاض احمد خمار
No comments:
Post a Comment