زندگی تجھ کو ترے جینے کی عادت کھا گئی
دھوپ اس بستی کی یہ اونچی عمارت کھا گئی
وضع داری اور روا داری کے وہ جلوے کہاں
ذہن و دل کی کج روی حسن شرافت کھا گئی
آپ کے الفاظ یا بھڑکے ہوئے شعلے ہیں یہ
رشتۂ اخلاص کو ان کی تمازت کھا گئی
دیکھیے ذہنی کدورت اور خباثت کا مذاق
اک عبادت گاہ یہ گندی سیاست کھا گئی
کھو گئیں شعر و سخن حسن بیاں کی لذتیں
سارا حسن شاعری سکوں کی چاہت کھا گئی
دائرے حرص و ہوس کے جس قدر بڑھتے گئے
خود فراموشی بڑھی حسن قناعت کھا گئی
کتنی ہی لبریز ہو حسن معانی سے طرب
ان کے انداز تخاطب کو طوالت کھا گئی
طرب صدیقی
No comments:
Post a Comment