خوشی سے کھیل گئے ہم قضا کے دامن پر
کہ حرف آنے نہ پائے وفا کے دامن پر
ہمارے خون کے قطرے گرا کے دامن پر
اک اور داغ لگایا وفا کے دامن پر
الٰہی ایسی گھٹا مے کدے میں چھا جائے
کہ توبہ ٹوٹے مِری پارسا کے دامن پر
قدوم ناز کا احساں پس فنا بھی رہا
اڑائی خاک لحد بھی ہوا کے دامن پر
بھلا مٹائے سے مٹتا بھی ہے نشان اس کا
ہزار خاک وہ ڈالیں وفا کے دامن پر
نہ بچ سکا ہے کوئی اور نہ بچ سکے گا کوئی
ہے قبضہ موت کا شاہ و گدا کے دامن پر
مِرے کریم نے ایسا مجھے نواز دیا
مچل رہی ہے اجابت دعا کے دامن پر
تِرے کرم نے بنایا ہماری بگڑی کو
وگرنہ داغ تھے لاکھوں خطا کے دامن پر
شفیعؔ جامۂ ہستی بھی تار تار کیا
جنوں نے ہاتھ کو اپنے بڑھا کے دامن پر
شفیع اللہ بہرائچی
No comments:
Post a Comment