Wednesday 9 October 2024

خوشی سے کھیل گئے ہم قضا کے دامن پر

 خوشی سے کھیل گئے ہم قضا کے دامن پر

کہ حرف آنے نہ پائے وفا کے دامن پر

ہمارے خون کے قطرے گرا کے دامن پر

اک اور داغ لگایا وفا کے دامن پر

الٰہی ایسی گھٹا مے کدے میں چھا جائے

کہ توبہ ٹوٹے مِری پارسا کے دامن پر

قدوم ناز کا احساں پس فنا بھی رہا

اڑائی خاک لحد بھی ہوا کے دامن پر

بھلا مٹائے سے مٹتا بھی ہے نشان اس کا

ہزار خاک وہ ڈالیں وفا کے دامن پر

نہ بچ سکا ہے کوئی اور نہ بچ سکے گا کوئی

ہے قبضہ موت کا شاہ و گدا کے دامن پر

مِرے کریم نے ایسا مجھے نواز دیا

مچل رہی ہے اجابت دعا کے دامن پر

تِرے کرم نے بنایا ہماری بگڑی کو

وگرنہ داغ تھے لاکھوں خطا کے دامن پر

شفیعؔ جامۂ ہستی بھی تار تار کیا

جنوں نے ہاتھ کو اپنے بڑھا کے دامن پر


شفیع اللہ بہرائچی

No comments:

Post a Comment