Tuesday 1 October 2024

عمر بھر کون بھلا رہتا ہے اقدار کے ساتھ

 عُمر بھر کون بھلا رہتا ہے اقدار کے ساتھ

تُل گئے لوگ کئی درہم و دینار کے ساتھ

سچ کو پوچھا نہ وفا ہی کی طلب تھی سب کو

جھُوٹ بِکتا رہا یاں گرمئ بازار کے ساتھ

اپنے دامن میں محبت تھی، وفا تھی، سچ تھا

سودا کرتے بھی تو کیا کرتے خریدار کے ساتھ

جب چھٹی بھیڑ تو پھر دُھوپ میں ہم تھے تنہا

لوگ تو بیٹھ گئے سایۂ دیوار کے ساتھ

زر بھی ہے قاضئ حاجات خطا پوش یہاں

لوگ کہتے ہیں کیا رکھا ہے کردار کے ساتھ

ہم تہی دست تھے، کرتے تھے وفا کی باتیں

جو سخن ساز تھے دیکھے گئے فنکار کے ساتھ

اب چلو چھوڑو ظفر! یہ ہیں پُرانی باتیں

جن کو جانا ہو چلے جاتے ہیں زردار کے ساتھ


ظفر اقبال نوری

No comments:

Post a Comment