کاٹے ہیں دن حیات کے لاچار کی طرح
کہنے کو زندگی ہے یہ گُلزار کی طرح
معلوم ہی نہ تھیں انہیں کچھ اپنی قیمتیں
اہلِ قلم بِکے یہاں اخبار کی طرح
تقریر اس نے کی تھی ہمارے خلاف جو
ہر لفظ چُبھ رہا ہے ہمیں خار کی طرح
کیا تم پہ اعتبار کریں تم ہی کچھ کہو؟
قول و قرار کرتے ہو سرکار کی طرح
نکلے گی کیسے کوئی ملاقات کی سبیل
دُنیا کھڑی ہے راہ میں دیوار کی طرح
غیرت ہمیں عزیز ہے غیرت سے ہم جیے
پہنی ہے ہم نے سر پہ یہ دستار کی طرح
اے شوبھا! دیکھ ان کی ذرا خوش لباسیاں
نکلے ہیں بن کے وہ کسی گُلزار کی طرح
شوبھا ککل
No comments:
Post a Comment