جھولڑی
بچپن میں باپا نے مجھ کو
دلائی دی تھی ایک جھولڑی
سکڑ گئی تھی وہ
جھیل نہ سکی تھی پہلی دُھلائی
اپنا رنگ کھو دیا، کھسک گئی تھی سِلائی
مجھے نفرت ہے اس سے
غصے سے پھٹ پڑا تھا میں
نہیں پہنوں گا میں یہ جھولڑی
ماں نے سر کو سہلایا
بڑے پیار سے مجھے منایا؛
میرے لال! پہنو اسے جب تک یہ پھٹ نہ جائے
پھر ہم دلائیں گے ایک نئی جھولڑی
آج جھُک گیا ہے یہ جسم
ہو گیا ہے جھولڑی، جس سے مجھے نفرت تھی
ہر طرف جھُریاں ہیں
جوڑ پگھل رہے ہیں
سانس لیتا ہوں تو کانپتا ہوں
اور میرے دماغ کا غصہ پھُوٹ پڑا ہے
نہیں چاہیے مجھے اب یہ جسم
جیسے ہی اسے جھٹکنے کی کوشش کرتا ہوں
مجھے ماں اور ان کی میٹھی باتیں یاد آ جاتی ہیں؛
میرے لال! پہنو اسے جب تک یہ پھٹ نہ جائے
جب تک کہ یہ ختم نہ ہو جائے
گجراتی شاعری؛ وجے سنگھ پارگی
اردو ترجمہ؛ شفیق عالم
No comments:
Post a Comment