Thursday 10 October 2024

جھولڑی بچپن میں باپا نے مجھ کو

 جھولڑی 


بچپن میں باپا نے مجھ کو

دلائی دی تھی ایک جھولڑی

سکڑ گئی تھی وہ

جھیل نہ سکی تھی پہلی دُھلائی

اپنا رنگ کھو دیا، کھسک گئی تھی سِلائی

مجھے نفرت ہے اس سے

غصے سے پھٹ پڑا تھا میں

نہیں پہنوں گا میں یہ جھولڑی

ماں نے سر کو سہلایا

بڑے پیار سے مجھے منایا؛

میرے لال! پہنو اسے جب تک یہ پھٹ نہ جائے

پھر ہم دلائیں گے ایک نئی جھولڑی

آج جھُک گیا ہے یہ جسم

ہو گیا ہے جھولڑی، جس سے مجھے نفرت تھی

ہر طرف جھُریاں ہیں

جوڑ پگھل رہے ہیں

سانس لیتا ہوں تو کانپتا ہوں

اور میرے دماغ کا غصہ پھُوٹ پڑا ہے

نہیں چاہیے مجھے اب یہ جسم

جیسے ہی اسے جھٹکنے کی کوشش کرتا ہوں

مجھے ماں اور ان کی میٹھی باتیں یاد آ جاتی ہیں؛

میرے لال! پہنو اسے جب تک یہ پھٹ نہ جائے

جب تک کہ یہ ختم نہ ہو جائے


گجراتی شاعری؛ وجے سنگھ پارگی

اردو ترجمہ؛ شفیق عالم

No comments:

Post a Comment