دل سے لالچ بغض اٹھا کر پھینکا ہے
واپس آ جاتا ہے اکثر پھینکا ہے
لہروں کا اندازہ لوگ لگا لیں گے
ہم نے بس تالاب میں پتھر پھینکا ہے
اس نے واپس میرے منہ پر مار دیا
میں نے جو شیطان پہ کنکر پھینکا ہے
اس کا مطلب میں انکار ہی سمجھوں نا
اس نے مجھ کو گھر سے باہر پھینکا ہے
اس سے بہتر تھا ہم بھوکے مر جاتے
جس نخوت سے اس نے لنگر پھینکا ہے
گھر میں خوب صفائی کی اور کچرے کا
اپنے دروازے میں شاپر پھینکا ہے
کاش پرندے آئیں باتیں کرنے کو
دانہ دنکا چھت کے اوپر پھینکا ہے
ہجرا! تیری خیر کہ تُو نے آنکھوں میں
اشکوں سے بھرپور سمندر پھینکا ہے
بس بتلا دے لے آؤں گا میں تنہا
میرا چین سکون کہاں پر پھینکا ہے
محمد عمران تنہا
No comments:
Post a Comment