Friday 11 October 2024

خدا ناراض ہے شاید چلو رب کو منا لیں اب

 خدا ناراض ہے شاید


ابھی تو جھُوٹ بکتا ہے بازاروں میں اداروں میں 

سفارش اور رشوت ہے تو ہو گا کام اشاروں میں

ابھی تو سو روپے کی چیز بکتی ہے ہزاروں میں

جہاں پر لونڈے بازی ہے مدرسوں اور مزاروں میں

کبھی ہیجڑوں کو ہم جلتی ہوئی سگرٹ لگاتے ہیں

کبھی عورت کو راہ چلتے ہوئے رنڈی بُلاتے ہیں

کبھی ہم بے زبانوں کو ستاتے ہیں، رُلاتے ہیں

کبھی سڑکوں پہ چلّاتے ہوئے عہدے بتاتے ہیں

گِرا کر کوٹھڑی مسکین کی کوٹھی بناتے ہیں

نفع نقصان کی گِنتی ہے اور رب کو مناتے ہیں

ابھی بے پردگی اور بے حیائی کے گُناہ باقی

ابھی معصوم بچوں سے درندوں کے زنا باقی

بقاء کی جنگ لڑتا ہے کوئی ہے محوِ عیاشی

ڈرو اس وقت سے جس دن رہ جائے گی فنا باقی

جہاں پر عالمِ دیں معافی مانگیں خود کمینوں سے

جنہوں نے دی نہیں اُجرت غریبوں کو مہینوں سے

ذرا تم امن کی پٹی ہٹا کر سرحدوں کے پار دیکھو تو

تمہیں فوجیں نظر آئیں جو برسوں سے مسلّط ہیں

تمہیں معلوم ہے؟

جب بے گناہ کا خون گرتا ہے تو اوپر عرش ہلتا ہے

در و دیوار، نہ بازار نہ اسکول نہ بستہ

جو بچہ ماں کو دفنائے وہ بچہ پھر نہیں ہنستا

ابھی بھی ڈر نہیں لگتا؟

یہ قبرستان تم کو اپنا گھر نہیں لگتا

فقط اک حادثہ ہو گا، وبا آئے گی یا کوئی

خدا ہم کو دکھا دے گا؛ 

کہ تو بس اک بھُربھری مٹی سے زیادہ کچھ نہیں انساں

تیری اوقات بھی کیا ہے 

یہ دنیا کے جھمیلے ان میں جیت اور مات بھی کیا ہے

بالآخر لوٹ جانا ہے

اے دھرتی کے خدا، دھرتی تلے کیڑوں نے کھانا ہے

چلو رب کو منا لیں اب

گریں سجدے میں، معافی مانگ لیں آنسو بہا لیں ہم

ہے کوئی مصلحت پوشیدہ کوئی راز ہے شاید

خدا ناراض ہے شاید


محسن عباس حیدر

No comments:

Post a Comment