شامِ الم کو اپنی تُو صُبحِ یقیں بنا
شک دُور کر وثوق کو دل کا مکیں بنا
صبحِ طرب ہے خندۂ رُوئے بہار زیست
شامِ الم سے دل کو نہ اندوہگیں بنا
ہر نیشِ غم کو اپنے لیے نوشِ جاں سمجھ
زہراب بھی ملے تو اسے انگبیں بنا
سجدہ ہے چیز بعد کی اے شوق! پہلے تُو
اس آستاں کے سجدے کے قابل جبیں بنا
تخلیق آدمی کی کوئی کھیل تو نہیں
مچلا دماغِ حق میں بہت تب کہیں بنا
باقی رہے نہ فرق نشیب و فراز کا
ہم دوش آسمان کے اپنی زمیں بنا
ہے فیض تیرے خرمنِ افکار کا عطا
ہر مرغ نغمہ سنج ترا خوشہ چیں بنا
عطا کاکوی
No comments:
Post a Comment