چراغ ہو کے لڑا ہوں ہواؤں سے تنہا
اُلجھ گیا ہوں زمیں کے خُداؤں سے تنہا
میں صُبح سو کے جو اُٹھا تو خیمہ خالی تھا
مجھے ہے واسطہ اب کربلاؤں سے تنہا
وہاں اندھیرے پڑے چیختے ہیں قَرنوں کے
ابھی ہوں لوٹا فلک کی گھپاؤں سے تنہا
سب اہلِ شہر بھی اب میرا ساتھ چھوڑ گئے
کہ میری جنگ ہے کچھ ہمنواؤں سے تنہا
نہ مُشتری میرا ہمدم، نہ ہمقدم ہے مریخ
گزر رہا ہوں بدن کی خلاؤں سے تنہا
زمین بیل کے سر پر ہے یا کہ مچھلی کے
میں کھینچتا ہوں مگر اپنے پاؤں سے تنہا
نہ کوئی زادِ سفر ہے نہ شانۂ جبریل
یہ کون گزرا مِری انتہاؤں سے تنہا
اسی لیے میرے اندر محبتیں ہیں بہت
مجھے نبھانی پڑی بے وفاؤں سے تنہا
جلانا پڑتی ہے مَشعل خُود آپ ہی محبوب
اندھیرا چَھٹتا نہیں ہے دُعاؤں سے تنہا
محبوب صابر
No comments:
Post a Comment