Saturday, 2 November 2024

تم ملے تھے کہ نہیں رات یہ شک باقی ہے

 تم ملے تھے کہ نہیں رات یہ شک باقی ہے

جسم ہے چُور مگر دل میں چپک باقی ہے

سو گئیں جاگتے لمحوں کی نشیلی آنکھیں

بسترِ شب کی نگاہوں میں چمک باقی ہے

آج کی رات نہ پھر لوٹ کے آئے شاید

آج کی رات بھی کیوں دل میں کسک باقی ہے

میری رگ رگ میں تو ہے تیرے بدن کی خوشبو

تیری ہر سانس میں دُوئی کی مہک باقی ہے

یوں تو دو روحوں کی تکمیل بھی ہو سکتی ہے

زیب آغوش مگر تجھ میں جھجک باقی ہے

تلخئ ہجر کے آلام تو بھولے شاہد

لذتِ وصل کی یاد آج تلک باقی ہے


شاہد شیدائی

No comments:

Post a Comment