اتارے بزم میں کوئی تو خامشی کا بوجھ
اٹھائے شمع کہاں تک یہ روشنی کا بوجھ
ہوائیں گاڑتی پھرتی ہیں ریت کے خیمے
اٹھا سکیں نہ کبھی سر پہ یہ کسی کا بوجھ
تمہارے شہر کے آداب ہیں نہ کوئی اصول
کسی کے سر پہ ہے رکھا ہوا کسی کا بوجھ
اک ایسا دور بھی دیکھا ہے ہم نے موسم کا
گُلوں سے اُٹھ نہ سکا جب کسی کلی کا بوجھ
یہ کیسی آج کی تہذیب نے ہے لی کروٹ
کہ آدمی ہی پہ بھاری ہے آدمی کا بوجھ
سکوں ملے تو ذرا ٹھہر جاؤں دم لے لوں
اٹھائے پھرتا ہوں مدت سے زندگی کا بوجھ
جو آرزو ہے تو اے رند بڑھ کے لے لو جام
لیے ہوئے دل پہ عبث ذوقِ میکشی کا بوجھ
رند ساغری فتح گڑھی
No comments:
Post a Comment