Saturday 2 November 2024

اتارے بزم میں کوئی تو خامشی کا بوجھ

 اتارے بزم میں کوئی تو خامشی کا بوجھ

اٹھائے شمع کہاں تک یہ روشنی کا بوجھ

ہوائیں گاڑتی پھرتی ہیں ریت کے خیمے

اٹھا سکیں نہ کبھی سر پہ یہ کسی کا بوجھ

تمہارے شہر کے آداب ہیں نہ کوئی اصول

کسی کے سر پہ ہے رکھا ہوا کسی کا بوجھ

اک ایسا دور بھی دیکھا ہے ہم نے موسم کا

گُلوں سے اُٹھ نہ سکا جب کسی کلی کا بوجھ

یہ کیسی آج کی تہذیب نے ہے لی کروٹ

کہ آدمی ہی پہ بھاری ہے آدمی کا بوجھ

سکوں ملے تو ذرا ٹھہر جاؤں دم لے لوں

اٹھائے پھرتا ہوں مدت سے زندگی کا بوجھ

جو آرزو ہے تو اے رند بڑھ کے لے لو جام

لیے ہوئے دل پہ عبث ذوقِ میکشی کا بوجھ


رند ساغری فتح گڑھی

No comments:

Post a Comment