جو بڑھ گئی ہے تو لے آؤ اپنی تنہائی
مِری اداسی سے ملواؤ اپنی تنہائی
جو کرتے رہتے ہو تم خود سے گفتگو اکثر
کبھی مجھے بھی تو سنواؤ اپنی تنہائی
خرید کر لو مجھے اپنی خلوتوں کے عوض
میں بیچتا ہوں اسی بھاؤ اپنی تنہائی
کسی کی رونق دنیا تو مت کرو برباد
جگہ جگہ تو نہ پھیلاؤ اپنی تنہائی
محبوب کاشمیری
No comments:
Post a Comment