Sunday, 1 December 2024

دنیا یہ سہی عدو بہت ہے

 دنیا یہ سہی عدو بہت ہے

میرے لیے ایک تو بہت ہے

آبادیٔ ہم زباں ہے لیکن

محتاجیٔ گفتگو بہت ہے

اک حاصل جستجو میں شاید

لا حاصل جستجو بہت ہے

آساں نہیں ساتھ عمر بھر کا

اندیشۂ من و تو بہت ہے

ایسا ہے کہ ان دنوں تمہاری

تصویر سے گفتگو بہت ہے

چھوڑے گا وہ لے کے جان اک دن

اک دوست ہے سو عدو بہت ہے

جل اٹھتی ہیں شام ہی سے شمعیں

آنکھوں میں مری لہو بہت ہے

دنیا نہیں جانتی ثنا کو

رسوا سہی سرخرو بہت ہے


ثنا گورکھپوری

No comments:

Post a Comment