ہمیشہ کی طرح بانہیں مِری پتوار کرنے کا
کِیا ہے فیصلہ ناؤ نے دریا پار کرنے کا
وہی ہے مشغلہ صدیوں پرانا آج بھی اپنا
زمیں پر بوجھ ہونے آسماں کو بار کرنے کا
سفر کا مرحلہ تو بعد میں محل نظر ہو گا
ابھی تو مُدعا ہے راستہ پُر خار کرنے کا
تعلق ٹوٹتا جاتا ہے اپنے آپ سے میرا
توسط بن رہی ہے آگہی بیزار کرنے کا
مجھے رکھتی ہے مُشکل روزمرہ کی سہولت میں
مِرا معمول ہے آسانیاں دُشوار کرنے کا
تمدن کو ہوا دیتی ہے آشفتہ سری میری
مجھے تعمیر کرتا ہے جنوں مسمار کرنے کا
کہاں تک اور جانے آزماتی جائے گی مجھ پر
ہُنر جو جانتی ہے شاعری بے کار کرنے کا
وہ کچھ سے کچھ بنا ڈالے گا تسلیمات کے معنی
سلیقہ آ گیا اس کو اگر انکار کرنے کا
نہ جانے سوچ کر سُورج نے کیا شب کی قلمرو پر
ارادہ ملتوی ہی کر دیا یلغار کرنے کا
خاور جیلانی
No comments:
Post a Comment