بے گنہ جب بھی سر دار نظر آتے ہیں
اک نئے دور کے آثار نظر آتے ہیں
سرفرازی کے سب آثار نظر آتے ہیں
اہلِ حق دار پہ سردار نظر آتے ہیں
درد مندانِ چمن! آنکھ نہ لگنے پائے
ہم کو شب خون کے آثار نظر آتے ہیں
صرف دشمن کی شجاعت ہی نہیں ہے فاتح
اپنی صف میں کئی غدار نظر آتے ہیں
ان کو یا رب! کوئی انسان بھی دکھلائی دے
ہر طرف جبہ و دستار نظر آتے ہیں
چھوڑ کر مسندِ میراثِ نبوت صد حیف
اہلِ دیں زینتِ دربار نظر آتے ہیں
للہ الحمد کہ انبوہِ خرد منداں میں
ہم سے دیوانے بھی دو چار نظر آتے ہیں
دل کی یہ ضد ہے کہ جب کہیے غزل ہی کہیے
وہ قصیدے کے طلب گار نظر آتے ہیں
نعیم حامد علی
No comments:
Post a Comment