اٹک گیا ہے یہ دل خارزار میں اپنا
کوئی علاج نہیں شہر یار میں اپنا
اب اس کے شہر میں جائیں تو کس لیے جائیں
ہوا وہ غیر تو کیا اس دیار میں اپنا
ملی نہ جان گنوا کر بھی منزلِ مقصود
لُٹا خزانۂ دل رہگزار میں اپنا
جو عمر بھر نہیں آئے وہ اب کیا آئیں گے
تمام عمر گیا انتظار میں اپنا
ہزار بار فریبِ یقینِ دل کھایا
ضمیر کیا نہ لُٹا اعتبار میں اپنا
ضمیر حیدر ضمیر
بصارت سے محروم شاعر
No comments:
Post a Comment