ایسا فریب طرز گزر مجھ کو دے گئے
دیوار و در تو لے گئے گھر مجھ کو دے گئے
معراجِ نقدِ فکر و نظر مجھ کو دے گئے
یہ کم نہیں مزاجِ ہنر مجھ کو دے گئے
اجڑی حویلیوں کی نشانی سمجھ کے وہ
اک کرب میں نہاتا کھنڈر مجھ کو دے گئے
مانگا تھا قتل شام کا اس سے کوئی ثبوت
تھالی میں بھر کے رنگِ سحر مجھ کو دے گئے
کاغذ کے چند پھول پہ قطرات سُرمئی
پتھر پہ رکھ کے رختِ سفر مجھ کو دے گئے
قوس صدیقی
No comments:
Post a Comment