ہماری زندگی اشکوں میں ڈھل کے
فسانہ بن گئی ہے رخ بدل کے
تقاضے جانتا ہوں آج کل کے
فسردہ شعر کہتا ہوں غزل کے
جہاں مجبوریاں حائل ہوئی ہیں
امیدیں رہ گئی ہیں ہاتھ مل کے
ہر اک جانب سیہ بختی کا عالم
نہ آ جائیں وفاؤں پر دھندلکے
چھڑا ہے جب مآلِ گُل کا قصہ
کلی کا رہ گیا ہے دل دہل کے
اندھیرا راہ پر چھایا ہوا ہے
ذرا اے قافلے والو! سنبھل کے
بہت ہے سخت راہِ عشق اے موج
بچھڑ جانا نہ تھوڑی دور چل کے
موج رامپوری
No comments:
Post a Comment