Saturday, 7 December 2024

ہماری زندگی اشکوں میں ڈھل کے

 ہماری زندگی اشکوں میں ڈھل کے

فسانہ بن گئی ہے رخ بدل کے

تقاضے جانتا ہوں آج کل کے

فسردہ شعر کہتا ہوں غزل کے

جہاں مجبوریاں حائل ہوئی ہیں

امیدیں رہ گئی ہیں ہاتھ مل کے

ہر اک جانب سیہ بختی کا عالم

نہ آ جائیں وفاؤں پر دھندلکے

چھڑا ہے جب مآلِ گُل کا قصہ

کلی کا رہ گیا ہے دل دہل کے

اندھیرا راہ پر چھایا ہوا ہے

ذرا اے قافلے والو! سنبھل کے

بہت ہے سخت راہِ عشق اے موج

بچھڑ جانا نہ تھوڑی دور چل کے


موج رامپوری

No comments:

Post a Comment