Saturday, 7 December 2024

وہ تو ساحل پر بھی ساحل آشنا ہوتا نہیں

 وہ تو ساحل پر بھی ساحل آشنا ہوتا نہیں

جس سفینے کا خُدا خود ناخُدا ہوتا نہیں

حشر کے فتنے اُٹھا دیتا مِرا ذوقِ جبیں

شُکر ہے ان کا کہیں بھی نقشِ پا ہوتا نہیں

قافلے گُم ہو گئے ہیں سینکڑوں اس راہ میں

طے کسی سے زندگی کا راستہ ہوتا نہیں

سوزِ پروانہ نہ ہو جب تک شریکِ انجمن

شمع کے جلنے سے کوئی فائدہ ہوتا نہیں

تلخ ہے پھر بھی نشاط اک تجربہ کی بات ہے

با وفا انسان ہر گز بے وفا ہوتا نہیں


داؤد نشاط

No comments:

Post a Comment