وہ تو ساحل پر بھی ساحل آشنا ہوتا نہیں
جس سفینے کا خُدا خود ناخُدا ہوتا نہیں
حشر کے فتنے اُٹھا دیتا مِرا ذوقِ جبیں
شُکر ہے ان کا کہیں بھی نقشِ پا ہوتا نہیں
قافلے گُم ہو گئے ہیں سینکڑوں اس راہ میں
طے کسی سے زندگی کا راستہ ہوتا نہیں
سوزِ پروانہ نہ ہو جب تک شریکِ انجمن
شمع کے جلنے سے کوئی فائدہ ہوتا نہیں
تلخ ہے پھر بھی نشاط اک تجربہ کی بات ہے
با وفا انسان ہر گز بے وفا ہوتا نہیں
داؤد نشاط
No comments:
Post a Comment