رہ وفا میں عجب سلسلہ بھی ملتا ہے
کوئی ہے خوش تو کوئی غمزدہ بھی ملتا ہے
خوشی ہمیشہ ملے پیار میں کہاں ممکن
غمِ فراق کا کچھ ذائقہ بھی ملتا ہے
یہ مانا اس میں جفاؤں کا تذکرہ ہے بہت
کتابِ عشق میں بابِ وفا بھی ملتا ہے
قدم بڑھاتے رہو گے تو پاؤ گے منزل
تلاش کرنے پر اک دن خدا بھی ملتا ہے
لپٹ کے روتی ہے پلکوں سے میری تنہائی
نجومِ اشک سے دامن بھرا بھی ملتا ہے
سفر میں ماں کی دعائیں بھی لے کے نکلا کرو
کہیں کہیں پہ ہجومِ بلا بھی ملتا ہے
یہ زندگی کبھی ہنستی کبھی ہے روتی ثمر
کہیں خوشی تو کہیں حادثہ بھی ملتا ہے
ثمر غازیپوری
محمد مسلم صدیقی
No comments:
Post a Comment