Saturday, 31 May 2025

نم دیدہ ہیں معصوم سی کشمیر کی آنکھیں

 نم دیدہ ہیں معصوم سی کشمیر کی آنکھیں

حسرت سے انہیں تکتی ہیں تدبیر کی آنکھیں

زنداں کے غم و درد کا احساس ہے ان کو

اطراف مِرے لپٹی ہیں زنجیر کی آنکھیں

مل جاتی انہیں قوتِ گویائی تو کیا تھا

کچھ کہنے سے معذور ہیں تصویر کی آنکھیں

تدبیر کے میدان میں ناکامی سے تیری

مایوس ہوئی جاتی ہیں تقدیر کی آنکھیں

لوگوں کی نگاہوں سے تو محفوظ ہے لیکن

واقف ہیں تِرے ظلم سے شہتیر کی آنکھیں

دیکھا ہی نہیں اس کی بصارت کو کسی نے

کرتی ہیں شکایت مِری تحریر کی آنکھیں

آنکھوں میں نظر ڈال کے آنکھیں اسے دیکھو

دن رات غضب ڈھاتی ہیں شمشیر کی آنکھیں


سعید نظر

No comments:

Post a Comment