نا اہل سے بھولے سے دانائی نہ لی جائے
دریا سے سمندر کی گہرائی نہ لی جائے
ہر پل ہو ثنا خوانی اس رب حقیقت کی
اس عالم عرفاں سے تنہائی نہ لی جائے
جس بزم میں ملتا ہو انصاف جہانگیری
اس بزم سے پھر کیسے اچھائی نہ لی جائے
جو گلشن ہستی کو شاداب نہ کر پائے
پروائی ہو وہ پھر بھی پروائی نہ لی جائے
تزئین تخیل تو ہے لازمی فن کارو
اوروں سے کسی صورت گویائی نہ لی جائے
جو خسرو ہستی ہیں اکثر یہی کہتے ہیں
صدقے میں کسی سے بھی دارائی نہ لی جائے
آئین زباں بندی کیا اس لئے نافذ ہے
بیدار نہ ہو پائیں انگڑائی نہ لی جائے
ہاں صبر و قناعت کا مقصود یہ مطلب ہے
قرضے کی کوئی شے بھی اے بھائی نہ لی جائے
مقصود احمد نشتری
No comments:
Post a Comment