Thursday, 29 May 2025

نا اہل سے بھولے سے دانائی نہ لی جائے

 نا اہل سے بھولے سے دانائی نہ لی جائے

دریا سے سمندر کی گہرائی نہ لی جائے

ہر پل ہو ثنا خوانی اس رب حقیقت کی

اس عالم عرفاں سے تنہائی نہ لی جائے

جس بزم میں ملتا ہو انصاف جہانگیری

اس بزم سے پھر کیسے اچھائی نہ لی جائے

جو گلشن ہستی کو شاداب نہ کر پائے

پروائی ہو وہ پھر بھی پروائی نہ لی جائے

تزئین تخیل تو ہے لازمی فن کارو

اوروں سے کسی صورت گویائی نہ لی جائے

جو خسرو ہستی ہیں اکثر یہی کہتے ہیں

صدقے میں کسی سے بھی دارائی نہ لی جائے

آئین زباں بندی کیا اس لئے نافذ ہے

بیدار نہ ہو پائیں انگڑائی نہ لی جائے

ہاں صبر و قناعت کا مقصود یہ مطلب ہے

قرضے کی کوئی شے بھی اے بھائی نہ لی جائے


مقصود احمد نشتری

No comments:

Post a Comment