کوئی تو حسب خواہ بھی میرا دکھائی دے
جس کو جہاں میں کہہ سکوں اپنا دکھائی دے
کس نے بنایا ایسا مِرے شہر کا نظام
انسانیت بھی خون کا دریا دکھائی دے
گرد و غبار راہ سے ایسا ہٹاؤ تم
پانی کے طرح شہر کا نقشہ دکھائی دے
کتنی سیاہ رات ہے تم خود ہی دیکھ کر
ایسا دیا جلاؤ کہ رستہ دکھائی دے
ایسا بناؤ شہر کا ماحول تم نہیں
آنکھوں میں میری خون کا قطرہ دکھائی دے
میری تمام عمر یہی خواہشیں رہیں
میرا الگ سماج میں رتبہ دکھائی دے
تا عمر سرفراز! یہی آرزو رہی
خوابوں میں کاش نور کا چہرہ دکھائی دے
سرفراز اشہر
No comments:
Post a Comment