Tuesday, 27 May 2025

نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے

 نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے

گلاب اب کے چمن کی دیوار پر کھلا ہے

یہ کیسی انگڑائی لی ہے احساس زندگی نے

مسیح کا رنگ روئے بیمار پر کھلا ہے

نفی کا جادو جگا رہی ہیں طلسمی آنکھیں

وہ حرف مطلب فصیل اظہار پر کھلا ہے

کتاب رخ ہے حجاب تقدیس حسن جاناں

یہ راز کیسا مذاق دیدار پر کھلا ہے

بہار آگیں حیات افروز پھول بن کر

لہو کا چھینٹا قبائے ایثار پر کھلا ہے

مجھے بنایا گیا تھا خاموشیوں کا پیکر

یہ غنچۂ لب کسی کے اصرار پر کھلا ہے

صبا کا ذوق سخن نگار غزل کے حق میں

وہ کالا تل ہے جو گورے رخسار پر کھلا ہے


صبا نقوی

No comments:

Post a Comment