Sunday, 25 May 2025

چشم تر ہے کوئی سراب نہیں

 چشم تر ہے کوئی سراب نہیں

درد دل اب کوئی عذاب نہیں

کیسے اس بات پر یقیں کر لوں

تو حقیقت ہے کوئی خواب نہیں

موسم گل کا ذکر رہنے دے

یہ مری بات کا جواب نہیں

تو اگر غم سے اجنبی ہے تو

حال اپنا بھی اب خراب نہیں

مان لیتا ہوں میں نہیں مجنوں

تیرا رخ بھی تو ماہتاب نہیں

کیا کروں حسن کا تصور اب

تیرے چہرے پہ جب نقاب نہیں

دیر پہچاننے میں پل بھر کی

یہ کوئی باعث اضطراب نہیں

عمر گزری ہے معذرت کرتے

غفلتیں میری بے حساب نہیں


سندیپ کول نادم

No comments:

Post a Comment